غلام محمود ڈوگر کو دوبارہ سی سی پی او لاہور مقرر کر دیا گیا

غلام محمود ڈوگر کو تقریبا نو ماہ بعد دوبارہ سی سی پی او لاہور یعنی لاہور پولیس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ موصوف کا اکتوبر 2021 میں تحریک لبیک پاکستان کا اسلام آباد کے لئے روانہ ہونے والے لانگ مارچ کو لاہور تک محدود نہ کرسکنے کے بعد 4 نومبر کو عہدے سے برطرف کرکے تبادلہ کر دیا گیا تھا۔

تحریک لبیک پاکستان کے اکتوبر 2021 کے لانگ مارچ کے دوران حکومتی وزرا و افسران
وزیر اعظم عمران خان (تحریک انصاف)
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار (تحریک انصاف)
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید (/تحریک انصاف)
صوبائی وزیر داخلہ پنجاب راجہ بشارت (تحریک انصاف)
آئی جی پنجاب راو سردار
سربراہ لاہور پولیس غلام محمود ڈوگر

ڈوگر نے گزشتہ سال اپریل اور اکتوبر میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے اور لانگ مارچ پر کیے جانے والے آپریشن اور تشدد کی بذات خود نگرانی کی جس میں تحریک لبیک پاکستان کے بیس سے زائد کارکنان نے جام شہادت نوش کیا۔ اکتوبر 2021 میں سی سی پی او کی کمانڈ میں پولیس نے ایم اے کالج لاہور، بتی چوک  اور راوی پل لاہور کے ساتھ ساتھ سادھوکی کے مقام پر بھی تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ پر بدترین تشدد کیا۔

مزید پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان کے لانگ مارچ پر بدترین ریاستی تشدد

گزشتہ سال اکتوبر میں تحریک لبیک پاکستان نے وفاقی حکومت کی جانب سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے سے متعلق وعدہ کی پاسداری کے انکار کے بعد دوہفتے لاہور کی ملتان روڈ پر پرامن احتجاج کے بعد اسلام آباد کے لئے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ اس دوران حکومت کی جانب سے بظاہرا نہ تو احتجاج پہ کان دھرا گیا اور نہ ہی کسی حکومتی نمائندے نے پرامن حل کے لئے رابطہ کیا۔ دو ہفتے بعد 21 اکتوبر کو جب تحریک لبیک پاکستان کا لانگ مارچ نماز جمعہ کے بعد اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا تو لاہور پولیس نے نہیاپ منصوبہ بندی کے ساتھ مارچ کو ایم اے او کالج لاہور کے مقام پر گھیرے میں لیکر بدترین فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جسے سے لانگ مارچ کے کئی شرکا شہید، درجنوں شدید زخمی اور سینکڑوں کے اعضا ضائع ہوگئے۔ مزید برآں، اس موقع پر زخمیوں کے لئے ایمبولینسز کو بھی نہیں آنے دیا گیا۔ گھنٹوں تاخیر کے بعد جب ایمبولنسز کو آنے کی اجازت دی گئی تو زخمیوں کو ایمبولینسوں اور ہسپتالوں سے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کے انتہائی منظم حملہ سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بظاہرا تو حکومت نے احتجاج کا کوئی اثر نہیں لیا تھا تاہم پولیس دو ہفتے سے اس حملے کی منصوبہ بندی کرتی رہی تھی۔ تاہم مارچ کے شرکا جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور یادگار فلائی اوور پر رات بسر کی۔ اس دوران سی سی پی او ڈوگر کی سربراہی میں لاہور پولیس ایک دفعہ پھر مارچ کو لاہور میں محدود کرنے کی منصوبہ بندی کرتی رہی اور صبح سویرے پہلے بتی چوک اور پھر راوی پل پر دوبار مارچ کو بدترین شیلنگ اور فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ ان ناکام حملوں میں بھی تحریک لبیک پاکستان نے کئی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ تاہم لانگ مارچ لاہور سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ جسکے بعد اسوقت کے وفاقی وزیر دبئی سے واپس آئے اور تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی درخواست کی۔ دوارن مذاکرات حکومت نے تحریک لبیک پاکستان سے استدعا کی کہ وہ تین دن مریدکے کے مقام پر انتظار کرے اور اس دوران ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر عملدرآمد کر دیا جائیگا۔ تحریک لبیک پاکستان نے قومی و ملکی وسیع تر مفاد میں اس بات پر رضا مندی کی اور مریدکے کے مقام پر لانگ مارچ روک کر سڑکیں ٹریفک کے لئے کھول دی گئیں۔

تاہم حکومت کی جانب سے تین دن تک مسلسل ہٹ دھرمی دکھائی گئی اور معاہدے پر عملدرآمد سے متعلق کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ تاہم اس دوران لاہور پولیس کی نفری کی لاہور پولیس لائنز سے سادھوکی منتقلی اور سی سی پی او ڈوگر کی پولیس کے افسروں او جوانوں سے خطاب کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پہ خاصے گردش کرتے رہے جسمیں وہ لاہور پولیس کو 'جذبے' کیساتھ تحریک لبیک پاکستان کے پرامن لانگ مارچ پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دیتے نظر آئے۔ تین دن بعد جب حکومت کو دی گئی ڈیڈ لائن بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئی تو تحریک لبیک پاکستان کا لانگ مارچ اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا۔ تاہم سادھوکی کے مقام پر اسے ایک دفعہ پھر بدترین ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا جہاں لاہور پولیس کی نفری ڈوگر کے 'جذبے' کیساتھ ساتھ ہیلی کاپٹر سے بھی لیس تھی اور مارچ کے شرکاء پہ فضا سے بھی فائرنگ کی گئی جسے سے تحریک لبیک پاکستان کو یہاں بھی جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑے۔ تاہم تحریک لبیک پاکستان نے شہدا کے اجساد خاکی کے ساتھ سفر جاری رکھا جنکی نماز جنازہ بعد ازاں گوجرانوالہ ميں ادا کی گئی۔

مزید پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان کا حافظ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج

مزید پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان نے شہدا کی فہرست جاری کر دی

اسکے علاوہ اپریل 2021 میں بھی لاہور پولیس کے سربراہ غلام محمود ڈوگر ہی تھے جب امیر تحریک لبیک پاکستان حافظ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد ہونے والے ٹی ایل پی کے دھرنے کیخلاف 18 اپریل کو طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا گیا۔ اس آپریشن کی قیادت بھی سی سی پی او لاہور نے کی۔ یاد رہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے یہ دونوں احتجاج عمران خان کی حکومت سے فرانسیسی سفیر کی ملک بے دخلی سے متعلق ہونے والے معاہدے سے روگردانی پہ کیے گئے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 16 نومبر 2020 کو فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک پاکستان کو ایک معاہدے کے ذریعے یقین دہانی کروائی تھی کہ فرانسیسی حکومت کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی سرپرستی پر فرانسیسی سفیر کو ملک سے بے دخل کر دیا جائیگا۔

مزید برآں، غلام محمود ڈوگر نے پنچاب حکومت کی ایما پر حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی کے لاہور ہائیکورٹ کے اقدامات کو بھی روندتے ہوئے تاخیری حربے استعمال کرکے امیر تحریک لبیک پاکستان کی نظربندی کو طول دیا۔ تاہم مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن، ملک کے ایک نامور تاجر اور مقتدر حلقوں کی ثالثی کے بعد تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان معاہدے کے بعد لانگ مارچ اختتام پذیر ہونے کے پانچویں روز پنجاب حکومت کے ایک نوٹیفیکیشن میں سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کا تبادلہ کر دیا گیا۔ تاہم گزشتہ جمعہ (29 جولائی 2022) کو موصوف کو دوبارہ لاہور پولیس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔