"حکومت اس کو سنجیدگی سے لے اور ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی اسکی تحقیق کرکے ذمہ داران کا تعین کرے،" مفتی منیب الرحمن

مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے لاہور میں حافظ سعد حسین رضوی کے ہمراہ ایک سانحہ حویلیاں سے متعلق پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ مقامی انتظامیہ نے جلوس سے قبل انہیں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا تھا جس پہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر ایٹ آباد کو کہا کہ تحریک لبیک پاکستان کو جلوس نکالنے دیا جائے اور وہ (مفتی منیب الرحمن) تحریک کو پابند کریں گے کہ وہ مقامی انتظامیہ یا کسی مسلک کے خلاف نعرہ بازی نہیں کرینگے۔ "ڈپٹی کمشنر نے میری بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ وہ یہ کمشنر کے ساتھ میٹنگ میں رکھیں گے۔ اسکے ہفتہ اور اتوار کو کوئی رابطہ نہیں کیا گيا اور پھر مجھے پیر کی صبح یہ اندہناک خبر ملی"۔

مفتی منیب الرحمن کا کہنا تھا کہ یہ ریاستی دہشتگردی کی بدترین مثال ہے اور واضح قتل عمد ہے۔ ہمارا مظالبہ ہے کہ ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائی جسمیں با اختیار لوگ اور تحریک لبیک پاکستان کے نمائندگان شامل ہوں۔ کمیٹی ذمہ داران کا تعین کرے جسکے بعد انہیں سزا بھی دی جائے۔

مفتی منیب الرحمن نے کے پی کے حکومت کی جانب سے کمیٹی بنائے جانے کے اعلان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ مبینہ ذمہ داران پر مشتمل ہی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو یونہی ہے جیسے بلی کو دودھ کی حفاظت کا کہا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جو لوگ ان سے رابطہ کرتے ہیں انہیں فیصلہ سازی کا اختیار نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں۔ حکومت اگر سنجیدگی سے کوئی بات کرنا چاہتی ہے تو بااختیار لوگوں کو بھیجا کرے۔

مفتی اعظم پاکستان نے پریس کانفرنس میں حکومت سے تمام بے گناہ اسیران ناموس رسالت کو بھی جلد از جلد رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایک سوال پہ کہ کیا تحریک لبیک پاکستان حکومت کو گرفتار کارکنان کی رہائی کے لئے کوئی ڈیڈلائن دنے جارہی ہے، مفتی منیب الرحمن کہ کہنا تھا کہ حکومت اگر سنجیدگی سے یہ کرنا چاہے تو ایک دن میں بھی کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی سے اکابرین اہلسنت پر مشتمل ایک وفد مفتی منیب الرحمن کی قیادت میں لاہور پہنچ گیا

مفتی منیب الرحمن گزشتہ روز کراچی سے اکابرین اہلسنت کے وفد کے ساتھ لاہور پہنچے تھے۔ وفد میں سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی، علامہ سید مظفر شاہ قادری، علامہ رفیع الرحمن، علامہ اشرف گورمانی اور مفتی عابد مبارک شامل تھے۔